تحریر: مولانا سید ظفر عباس رضوی قم المقدسہ
حوزہ نیوز ایجنسی। انسان کی زندگی میں بہت ساری چیزیں پیش آتی ہیں اور وہ اپنی زندگی کے دوران مختلف حالات اور مختلف مرحلوں سے روبرو اور دچار ہوتا ہے کبھی اس کے حالات اچھے ہوتے ہیں اور کبھی خراب ہوتے ہیں کبھی خوشی ہوتی ہے کبھی غم ہوتا ہے، کبھی صحت ہوتی ہے، کبھی مرض اور بیماری رہتی ہے، کبھی دوست زیادہ ہوتے ہیں اور کبھی دشمن زیادہ ہوتے ہیں، انسان کے حالات جب اچھے ہوتے ہیں تو انسان خوش رہتا ہے سکون سے رہتا ہے اور جب خراب ہوتے ہیں تو بے چین و مضطرب اور ٹینشن میں رہتا ہے، انسان اپنی زندگی میں محنت و مشقت کرتا ہے پڑھتا لکھتا ہے آگے بڑھتا ہے ترقی کرتا ہے جتنا زیادہ اور جتنی محنت سے پڑھتا ہے اتنے ہی اونچے مقام پہ پہونچتا ہے اور جب وہ کسی بڑے مقام اور پوسٹ پہ پہونچ جاتا ہے اور زیادہ مال و دولت والا ہوجاتا ہے تو اس کے دشمن اور حسد کرنے والے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور جب دشمن زیادہ ہو جاتے ہیں تو اس کو اپنی زندگی اور جان و مال کا خطرہ بھی ہوجاتا ہے اس لئے کہ دشمن مستقل اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ایسی صورت میں وہ اپنی حفاظت بھی بڑھا دیتا ہے اور ہر جگہ آنے جانے میں احتیاط سے کام لیتا ہے اگر اسے محسوس ہو جاتا ہے کہ کسی جگہ پہ جانے سے اس کے لئے خطرہ ہے تو وہ کبھی بھی اس جگہ پہ نہیں جاتا اور جب خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے تو وہ حکومت سے مدد مانگتا ہے گارڈ اور محافظ کا سوال کرتا ہے تاکہ وہ مسلسل اس کی حفاظت کرتے رہیں، اگر ہم دیکھیں تو ہم کو دنیا میں بہت سے لوگ مل جائیں گے جو یا تو بہت بڑے رئیس اور مالدار ہیں یا پھر کسی بہت بڑی پوسٹ پہ ہیں ان کی سیکورٹی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے تاکہ وہ ہر وقت ان کو ہر طرح کے دشمنوں اور ہر طرح کے خطروں سے بچا سکے، جس طرح انسان کے ظاہری دشمن ہوتے ہیں اسی طریقہ سے باطنی اور چھپے ہوئے دشمن بھی ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن کون ہے جب ہم انسان کے سب سے بڑے دشمن کی تلاش کرتے ہیں تو ہماری نظر پیغمبر اکرم کی اس حدیث پہ پڑتی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:
"أَعْدَى عَدُوِّكَ نَفْسُكَ الَّتِي بَيْنَ جَنْبَيْك"(مجموعہ ورام ج1ص59 ناشر- مکتبہ فقیہ قم)
"تمہارا سب سے بڑا دشمن تمہارا نفس ہے جو تمہارے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے"
خداوند عالم نے جناب یوسف علیہ السلام کے قول کو نقل کرتے ہوئے فرمایا:
"وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي"(یوسف 53)
"اور میں اپنے نفس کو بھی بری نہیں قرار دیتا کہ نفس بہر حال برائیوں کا حکم دینے والا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے"
انسان کے اگر ظاہری دشمن ہوتے ہیں تو وہ کافی احتیاط کرتا ہے اور سیکورٹی اور محافظ وغیرہ لیتا ہے تاکہ اس کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے، محافظ اور گارڈ وغیرہ اس کو ظاہری اور سامنے کے دشمن سے بچا سکتے ہیں، لیکن ظاہری دشمن سے زیادہ خطرناک باطنی اور چھپے ہوئے دشمن ہوتے ہیں، انسان کے ساتھ ایک ایسا چھپا ہوا دشمن ہے جو ہمیشہ انسان کے ساتھ رہتا ہے اور اس کو الگ اور جدا کرنا بھی ممکن نہیں ہے جب تک انسان رہے گا تب تک وہ رہے گا ایسی صورت میں انسان کو کتنا زیادہ محتاط رہنا چاہیئے اور کس قدر اسے احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔
انسان کا نفس اس کا بہت بڑا دشمن ہے جب نفس اس کی عقل پہ غالب آجاتا ہے تو پھر وہ، وہ کام انجام دیتا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیئے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ پڑھے لکھے ہوتے ہیں بعض کافی پڑھے ہوتے ہیں دینی تعلیم کے اعتبار سے بھی اور دنیوی تعلیم کے اعتبار سے بھی لیکن، جھوٹ بھی بولتے ہیں، غیبت بھی کرتے ہیں، نامحرم کو بھی دیکھتے ہیں، فتنہ فساد بھی کرتے ہیں حسد بھی کرتے ہیں جھگڑا لڑائی بھی کرتے ہیں، اور بھی بہت سے غیر اخلاقی کام انجام دیتے ہیں یا کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پڑھنے لکھنے کے با وجود بھی ہماری فکر بہت کوتاہ ہوتی ہے، غصہ جلدی آجاتا ہے، چھوٹی سی بات پہ جلدی ناراض ہو جاتے ہیں، اور جب خوش ہوتے ہیں تو حد سے زیادہ خوش ہوجاتے ہیں، معمولی سی مشکل اور سختی میں بہت جلدی گھبرا جاتے ہیں، بے جا توقعات اور بے جا امیدیں رکھتے ہیں اپنے نظریات کو ایک دوسرے کے اوپر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں، تعصب دکھاتے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا اور پست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، گروپ بازی اور پارٹی بازی دکھنے میں آتی ہے یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان کا نفس اس کے قابو اور کنٹرول میں نہیں ہوتا، اور یہ ساری مشکل، مشکل اخلاقی ہے، یہ چیزیں اس لئے پیش آتی ہیں کہ ہم نے پڑھ لکھ تو لیا لیکن اپنے نفس کی ذرہ برابر بھی تربیت نہیں کی۔
انسان جتنا بھی پڑھ لے لیکن اگر وہ اپنے نفس کی تربیت نہ کرے تو بہت سے غیر اخلاقی اور پست کام انجام دے گا، نفس انسان کا دشمن ہے اور اگر اس کی تربیت نہیں ہوئی تو غیر اخلاقی چیزیں انجام دے گا، اگر ہمیں نفس کی تربیت کرنا ہے تو اس کی تربیت کا بہترین موقع اور بہترین فرصت ماہ مبارک رمضان ہے اس لئے کہ جب انسان روزہ رکھتا ہے تو بہت سے کام کر سکتا ہے لیکن نہیں کرتا ہے کیوں کہ اس کا ارادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے، بہت سی چیزیں عام دنوں میں اس کے لئے جائز اور حلال ہوتی ہیں لیکن ماہ مبارک میں ان سے بھی پرہیز کرتا ہے، شوہر و زوجہ ایک دوسرے کے محرم ہوتے ہیں لیکن روزہ کی حالت میں بہت سی چیزوں سے اجتناب اور پرہیز کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ماہ مبارک رمضان کے علاوہ اگر کوئی ارادہ کر لے کہ نا محرم کی طرف نگاہ نہیں کرنا ہے تو نہیں کرے گا، اسی طریقہ سے انسان روزہ کی حالت میں شدید بھوک اور پیاس کے باوجود نہ ہی کھاتا ہے اور نہ ہی پیتا ہے جب کہ ساری چیزیں موجود ہوتی ہیں اور وہ کھا بھی سکتا ہے اور پی بھی سکتا ہے نہ کوئی روکنے والا ہوتا ہے نہ ہی منع کرنے والا، لیکن وہ ایسا نہیں کرتا اس کا مطلب یہ ہے کہ ماہ مبارک کے علاوہ اگر وہ ارادہ کر لے کہ مال حرام اور لقمہ حرام نہیں کھانا ہے تو پھر نہیں کھائے گا، یا کوئی بھی حرام چیز نہیں پئے گا تو پھر نہیں پئے گا، اسی طریقہ سے اور بھی دوسری حرام چیزیں انجام نہیں دے گا۔
اگر کوئی ماہ مبارک میں روزہ رکھ کے بہت سی حلال چیزوں سے پرہیز کرتا ہے اور دوری اختیار کرتا ہے تو وہ ماہ مبارک کے علاوہ بھی اگر دوسری چیزوں کے انجام نہ دینے کا ارادہ کر لے تو انجام نہیں دے گا، جھوٹ نہ بولنے کا ارادہ کر لے تو نہیں بولے گا، غیبت نہ کرنے کا ارادہ کر لے تو نہیں کرے گا، جھگڑا لڑائی فتنہ و فساد نہ کرنے کا ارادہ کر لے تو نہیں کرے گا، بس مضبوط اور محکم ارادہ کی ضرورت ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"إِذَا صُمْتَ فَلْيَصُمْ سَمْعُكَ وَ بَصَرُكَ وَ شَعْرُكَ وَ جِلْدُكَ وَ قَالَ: لاَ يَكُونُ يَوْمُ صَوْمِكَ كَيَوْمِ فِطْرِكَ"*(الکافی ج 4 ص 87 ناشر- دارالکتب الاسلامیہ تھران)
"جب تم روزہ رہو تو تمہارے کان آنکھ بال کھال کو بھی روزہ سے ہونا چاہئیے اور تمہارا روزہ رہنا اور نہ رہنا ایک جیسا نہ ہو"
دوسری جگہ پہ آپ نے فرمایا:
"و اذا صمتم فاحفظوا السنتکم و غضوا ابصارکم و لاتنازعوا و لاتحاسدوا"(الکافی ج 4 ص 87 ناشر- دارالکتب الاسلامیہ تھران)
"اگر تم روزہ رکھو تو اپنی زبان کو محفوظ رکھو اور اپنی نظروں کو جھکائے رکھو، لڑائی جھگڑا نہ کرو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو"
ایک اور جگہ پہ آپ نے فرمایا:
"إِذَا صُمْتَ فَلْيَصُمْ سَمْعُكَ وَ بَصَرُكَ مِنَ اَلْحَرَامِ وَ اَلْقَبِيحِ وَ دَعِ اَلْمِرَاءَ وَ أَذَى اَلْخَادِمِ وَ لْيَكُنْ عَلَيْكَ وَقَارُ اَلصِّيَامِ وَ لاَ تَجْعَلْ يَوْمَ صَوْمِكَ كَيَوْمِ فِطْرِكَ"(الکافی ج4 ص87 ناشر- دارالکتب الاسلامیہ تہران)
"جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کان اور آنکھ بھی حرام اور ناپسند چیزوں سے روزہ سے ہوں، اور لڑائی جھگڑے کو ترک کر دو اور اپنے غلام اور نوکر کو تکلیف مت پہنچاؤ اور تمہارے لئے ضروری ہے کہ روزہ کے وقار کو باقی اور برقرار رکھو"
پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:
"مَا مِنْ عَبْدٍ صَالِحٍ يُشْتَمُ فَيَقُولُ إِنِّي صَائِمٌ سَلاَمٌ عَلَيْكَ لاَ أَشْتِمُكَ كَمَا شَتَمْتَنِي إِلاَّ قَالَ اَلرَّبُّ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى اِسْتَجَارَ عَبْدِي بِالصَّوْمِ مِنْ شَرِّ عَبْدِي فَقَدْ أَجَرْتُهُ مِنَ اَلنَّارِ"(الکافی ج4 ص88 ناشر- دارالکتب الاسلامیہ تہران)
"کسی بھی نیک اور صالح بندہ کو اگر برا بھلا کہا جائے اور وہ جواب میں کہے کہ میں روزہ سے ہوں، تمہارے اوپر سلام ہو، میں تمہیں برا نہیں کہوں گا جس طرح سے تم نے مجھے کہا ہے، خدا وند عالم کہے گا میرے بندہ نے روزہ کے ذریعہ سے میرے بندہ کے شر سے نجات اور پناہ پا لیا، میں نے بھی اسے جہنم سے نجات اور پناہ دے دیا"
ان حدیثوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ روزہ صرف بھوک اور پیاس کا نہیں ہونا چاہئیے بلکہ اعضاء و جوارح کا بھی ہونا چاہیئے اور جب انسان اعضاء و جوارح کا روزہ رکھے گا تو پھر وہ کسی بھی طرح کا گناہ نہیں کرے گا، زبان کے روزہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان زبان کے ذریعہ کوئی گناہ نہ کرے غیبت نہ کرے تہمت نہ لگائے، جھوٹ نہ بولے، آنکھ کے روزہ کا مطلب یہ ہے کہ آنکھ کے ذریعہ سے کوئی بھی گناہ انجام نہ دیا جائے، نا محرم کو نگاہ نہ کیا جائے ہر اس چیز کو نہ دیکھا جائے جس کے دیکھنے کے لئے خدا نے منع کیا ہے۔
اسی طریقہ سے حدیث نے بیان کیا کہ روزہ کی حالت میں لڑائی جھگڑے سے بچا جائے حسد نہ کیا جائے، اور اگر کوئی روزہ کی حالت میں ہمارے ساتھ برا برتاؤ کرے اور ہم اسے کچھ نہ کہیں روزہ کی وجہ سے تو خدا ہمیں جہنم سے نجات دے دے گا، تو اب اگر ہم ایک مہینہ مسلسل اسی طریقہ سے روزہ رکھیں اور اپنے نفس کی تربیت کریں تو ماہ رمضان کے علاوہ بھی اسی طریقہ سے رہ سکتے ہیں اور ان سارے گناہوں سے بچ سکتے ہیں۔
امام صادق علیہ السلام امام زین العابدین علیہ السلام کے لئے فرماتے ہیں کہ:
"كانَ عَلِيُّ بنُ الحُسَينِ عليه السلام إذا كانَ شَهرُ رَمَضانَ لَم يَتَكَلَّم إلاّ بِالدُّعاءِ و التَّسبيحِ و الاِستِغفارِ و التَّكبيرِ"(کافی ج7 ص 444 ناشر- دارالحدیث قم)
"ماہ مبارک میں امام زین العابدین علیہ السلام کی زبان سے دعاو تسبیح اور استغفار و تکبیر کے علاوہ کوئی کلمہ سننے میں نہیں آتا تھا"
ہم کو بھی اپنے امام کی سیرت پہ عمل کرنا چاہیئے اور اس مبارک مہینہ میں اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ دعاو استغفار اور عبادت میں بسر کرنا چاہئیے۔
ظاہر سی بات ہے کہ جب انسان پورے ایک مہینہ مسلسل دعا و تسبیح اور استغفار و تکبیر کے علاوہ کچھ بولے گا ہی نہیں تو پھر اس کو مہارت اور ملکہ ہوجائے گا اور وہ ماہ مبارک کے علاوہ بھی ان چیزوں کو انجام دیتا رہے گا۔
لہذا ماہ مبارک ایک بہت بڑا موقع اور ایک بہترین فرصت اور نعمت ہے اپنے نفس کی تربیت کرنے کی، اور جب نفس کی اچھی تربیت ہوگی تو انسان کا ارادہ مضبوط ہوگا اور جب ارادہ مضبوط ہوگا تو انسان ہر اس چیز سے رکے گا جس سے دین اور شریعت نے اسے روکا ہے۔
آخر میں خدا وند عالم سے دعا ہے کہ خدا محمد(ص) و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں ہمیں اس مبارک مہینہ میں اپنے نفس کی زیادہ سے زیادہ تربیت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور اس مبارک مہینہ میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور زیادہ سے زیادہ نیک عمل انجام دینے کی توفیق عنایت فرمائے۔